سائنس اور سائنس دان بانی علم کیمیا جابر بن حیان کی نظر میں
تحریر: ڈاکٹر نوید سید
چکیدہ:
یہ مقالہ سائنس دانوں کی خصوصیات اور جدت، سائنس ، تحقیق اور دریافت کے بارے میں ابو موسیٰ جابربن حیان الیزدی المعروف جابر بن حیان یا “جیبر ”سے منسوب ان کے اس نقطہ نظر کی نشان دہی کرتا ہے جو کہ جابر بن حیان کا منشور ہے۔
جابر بن حیان وہ پہلے برجستہ عالم ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام کے اس سنہری دور کی بنیاد ڈالی جو اٹھارویں صدی سے بارہویں صدی عیسوی تک کے عرصے پر محیط ہے۔ جابر بن حیان کے نزدیک محققین، سائنس دان اور صاحبان علم ، وہ اہل فن ہیں جن کے تجربات ایک فن کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ کسی بھی مخصوص شعبے میں مہارت رکھنے والے یا تحقیق کرنے والے صاحب فن کو انہوں نے (Majistery) (کرشماتی، جادوئی، غیر مرئی قوت کی حامل شخصیت) کا نام دیا ہے۔
آج کل کے سائنس دانوں اور محققین کے“فن” کی جو خصوصیات انہوں نے صدیوں پہلے بیان کی تھیں وہ دور حاضر میں ایک معیار بن چکی ہیں۔ انہوں نے ایک “فنکار” کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی خصوصیات کو بھی بالوضاحت بیان کیا ہے۔ جو سائنس کو پیشے کے طور پر نہیں اپناتے۔
انہوں نے قدرتی ذہانت، پیدائشی رغبت، علم پر عبور حاصل کرنے کی ہمت، گہری بصیرت، حکمت، ناقدانہ سوچ دور اندیشی، لچک، موافقت، ابھرنے کی قوت، مستقل مزاجی اور جذبہ ایثار کو سائنسدانوں کے ضروری اجزاء اور ان کی کامیابی کے ذرائع کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ فنڈز کی فراہمی، تعاون شراکت داری اور سماجی ہم آہنگی کو بھی (سائنسی ارتقاء کے لیے) لازمی قرار دیا ہےجبکہ تندخوئی، تکبر اور مسابقت کے فقدان کو بھی سائنس کے فن میں (منفی ) کردار کا حامل قرار دیا ہے۔
یہ مقالہ سائنسی پیچیدگیوں کے حوالے سے ہماری آنکھیں کھول دیتا ہے اور ہمیں ایک طرف تو ہنر مند دور کی طرف لے جاتا ہے جبکہ دوسری طرف یہ مقالہ جدید سائنس اور روایتی اسلامی تعلیمات کے درمیان ہم آہنگی و مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ مقالہ کامیابی کے ان عوامل کی جانب بھی نشاندہی کرتا ہے جو سائنس کو دنیائے اسلام کے اس حلقے میں عروج بخشتی ہیں جہاں سائنس کو یا تو یکسر بھلا دیا گیا ہے اور یا پھر اسے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہاں ہم مسلم دنیا میں سائنس کے سنہری دور کے احیاء کے لیے کچھ تجاویز پیش کریں گے۔
تعارف:
ایک سائنس دان کو کن خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔ جابر بن حیان نے اپنی پہلی کتاب میں انہیں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ لفظ Majistery جابر بن حیان کے تمام مکتوبات میں دو چیزوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔
1. فطرت یا قدرت، ماہیت بدلنے یا اس میں اصلاح کی طاقت رکھتی ہے۔
2.کسی شے میں مہارت یا کسی مخصوص شعبہ میں تحقیق کو دور جدید میں بالا دستی حاصل ہے۔
Holymard ہولمرڈ (1923) نے جابر بن حیان کی تحقیق کی مکمل توثیق کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں بالوضاحت اور کسی ابہام کے بغیر یہ لکھا ہے کہ جابر بن حیان نے کیمیا سے متعلق معلومات کو جامع انداز میں مرتب کیا ہے اور انہیں مختلف علوم اور سائنس کے مختلف شعبوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے ایک ایسی جامع ساخت مہیا کی ہے جس کے نتیجے میں سائنسی ترقی کے دور میں بھی دیگر سائنسدان ان کی اتباع کرنے پر مجبور ہیں۔
(اگرچہ یہ مضمون مذکورہ مقالے کا موضوع نہیں ہے لیکن قارئین کو (Akyol 2018 and Montaziretabar and Feng 2020) کے لکھے گئے مقالہ جات کی طرف رجوع کرنے کا کہا جاتا ہے۔)
بہت سے مسلمان مورخین نے اپنی ناسمجھی یا کسی اور وجہ سے جابر بن حیان کے کام کی تردید کی ہے جبکہ کچھ دیگر غیر مسلم ان کی خدمات کا اعتراف کرنے سے کتراتے اور دلیل پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے لیے یہ ناقابل یقین بات ہے کہ کوئی ایک شخص اتنا کچھ لکھ سکتا ہے جبکہ کچھ لوگوں نے جابر بن حیان کے کام کے ایک بڑے حصے کو ان کے شاگردوں کی کارکردگی قرار دیا ہے۔ علمی بددیانتی پر مزید کالک ملنے کے لیے بہت سے یونانی، فرانسیسی اور دیگر مورخین نے جابر بن حیان کے کام کو بہت سے جعلی سکالرز کے جعلی کرداروں سے منسوب کر دیا۔
جابر بن حیان نے تمام کام خود تصنیف کیا ہے یا نہیں موجودہ مقالہ میں یہ بات مورد بحث نہیں اور ہماری وسیع تحقیق اور جابر کے کام کی تحقیقات کے ذریعے ہمیں واضح ثبوت ملا ہے کہ تمام مسلمان کیمیادان نویں صدی سے جابرہی کو اپنا آقا قرار دیتے چلےآرہے ہیں۔ مزید یہ کہ عربی میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جس میں ان کا حوالہ نہ دیا گیا ہو یا کم از کم ان کا ذکر کیمسٹری کے بانی کے طورپر نہ کیا گیا ہواس کا ایک ناقابل تردید ثبوت یہ بھی ہے کہ یونانی یا لاطینی میں Gaber جسے نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا اور جدید کیمسٹری کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے دراصل وہ جابربن حیان ہی ہیں۔ اگرچہ جابر بن حیان سے منسوب زیادہ تر تعمیری کام کے مستند ہونے کا معاملہ الگ سے قابل بحث ہے چونکہ ان کے کام کا اصل عربی متن یا تو کھو گیا ہے یا پھر منگولوں نے اسے اس وقت نذر آتش کر دیا تھا جب انہوں نے بغداد میں ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے اسے فتح کیا اور بغداد کی لائبریری میں موجود تمام کتابوں کو دریائے فرات میں دریا برد کر دیا تھا جس کی بابت مورخین کا بیان ہے کہ دریائے فرات کا پانی کئی دن تک ان کتابوں کی سیاہی کی وجہ سے سیاہ رنگت میں بہتا رہا ۔ یہ ایک ایسی علمی دہشت گردی تھی جو بہت سے بیش قیمت عربی متن پر مشتمل مسودات کے ختم ہونے کا موجب بنی اور اسی طرح جابر کے مستند کام کو بھی نقصان پہنچا تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ جابر کے جانشینوں نے مسلم دنیا میں ان کے کاموں کی یادداشت نقل کرنے کی کوشش کی ہو۔ پس اس طرح تحریر کے متعدد انداز تخلیق ہوئے اور بکھرے ہوئے متن کو انگریزی میں Giggerish یا Gibbergabber کی اصطلاح کے طور پر وضع کیا گیا اس کے باوجود جو کام جابر سے منسوب ہے وہ ان کی قدر دانی کے لیے کافی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ Odyssey جو کہ ایک بہت پرانی (یونانی) نظم ہے اور جسے بہت سے اہل قلم نے لکھا اور پھر اسے Hamerسے منسوب کیا اس کے علاوہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سقراط نے زیادہ نہیں لکھا جبکہ ان کے کام کو دستاویزی شکل دی گئی اور بعد میں اس کو افلاطون نے بیان کیا۔
اس مقالےمیں بنیادی طور پر ہم نے اس اصول اور معیار کو اپنایا ہے جسے جابر نے ایک سائنس دان کی خصوصی صلاحیت اور اس کی موافقت کی صلاحیت کے طور پر شمار کیا ہے۔ آخر میں ہم نے ان اصولوں اور خصوصیات کا موجودہ دور کے اکیڈمیک، تحقیق جدت و اختراع سے موازنہ کیا ہے تاکہ مسلم دنیا کے لیے اصل معاملہ سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو جائے اس کے علاوہ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جگانے والی آواز بن جائے گی جو اسلامی دنیا کو خوف کے احساس سے نجات دلاتے ہوئے ان کے اس عظیم ورثے تک ان کے اذہان کو پہنچائے گی جس کی وجہ سے وہ صدیوں پہلے باقی دنیا سے کہیں آگے تھے۔ جیسا کہ 2017 Mazaik بیان کرتا ہے کہ مسلمانوں کو مغرب کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہےچونکہ ان کے وہ تمام اجزاء جو کہ سائنس اور جدت اور اختراع کے لیے ضروری ہیں ان کی بنیاد مسلم سائنسدانوں نے پہلے ہی سے رکھ دی ہے۔ اس کے علاوہ ایک وسیع ہی ادبیات اس تصور کو چیلنج کرتی ہے کہ اسلام خصوصی و مورثی طور پر سائنس کا مخالف ہے یا اس کی ایجادات کے خلاف ہے جبکہ اس کے برخلاف 2003 Huff بیان کرتا ہے کہ قرون وسطی میں اسلامی دنیا نے سائنس اور ہنرمندی کے میدان میں مغرب اور چین کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
اس مقالہ کو لکھنے کے بنیادی محرکات وہ رپورٹس ہیں جو مسلم دنیا کے تعلیمی میعار، سائنس اور ایجادات کی ابتر حالت کو ظاہر کرتی ہیں جبکہ ان رپورٹس میں ان حالات کو بھی واضح کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان حالات کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی پیش کی ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلمان حکمرانوں نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا۔ دیگر رپورٹس اور ان کی سفارشات میں بہترین محقیقین، سکالرز اور اسلامی دنیا کے سائنسدانوں کے آگے بڑھنے کی حکمت عملی کے بارے میں لاعلمی ہے اور یہ کہ ان کی ثقافتی، روایتی اور مذہبی پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے بزرگوں نے حوصلہ شکنی کی کہ اہل مغرب جو کہ خدا کو نہیں مانتے ان سے رہنمائی حاصل نہ کریں بلکہ اپنے ایمان اور عقائد سے تحرک تلاش کریں۔
یہ مقالہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدانوں میں سے ایک عظیم سائنسدان کو پہچاننے کی کوشش ہے اور امید ہے کہ اس سے ہم کچھ حکمت اور رہنمائی لیں کیونکہ جابر بن حیان صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانی تہذیب کے لیے امید کا چراغ ہیں۔
جنیاتی طور پر ماحول کے مطابق ڈھالنے کا فطری رجحان جانوروں کی تمام اقسام میں پایا جاتا ہے۔ تاہم عام طور پر انسان اس کا انتخاب مستعدی سے کرتا ہے۔یہ ڈھل جانے والی تبدیلیاں کیڑے سے لے کر شہد کی مکھی، عام مکھی اور ممالیہ جانوروں کو زندہ رہنے پھلنے پھولنے اور اپنے متعلقہ ارتقاء کی حدود میں پنپنے کی اجازت دیتی ہیں اور زندگی بسر کرنے کی تفسیر یہ ان کی مرضی سے ہو یا پیچیدہ مشکلات سے ہو بہر حال ان کے مسکن اور زندگی کی بقاء کے لیے لڑنا ان کی جبلت میں رکھا گیاہے ۔ پس جتنی تیزی سے تبدیلی آئی گی اتنا ہی زیادہ ڈھل جانے کا عمل تیز ہوگا۔ انسانوں کی بےحد فکری صلاحیت، ان کے جذبات اور تبدیل ہونے کی ضرورت دوسری نسلوں کے مقابلے میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ انسانوں اور معاشرے کو اپنی ضروریات اور ارتقائی عوامل کو دیکھ کر ہر وقت بدلتے رہنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب نئے علم کی تخلیق اور ان کے استعمال نیز ٹیکنالوجی میں جدت لائی جائے۔ اس مقصد کے ساتھ حقیقی زندگی کے مسائل کو حل کریں تو انسانوں اور دوسری اصناف ذی روح کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔ دیگر جانداروں کے برعکس انسان اپنے مسائل جلدحل کرنے والا بن گیا اور یہ مستقبل کی تبدیلیوں کے بارے میں پیش گوئی کرنے والا بھی ہے پس یہی خصوصیات انسانوں کو آئندہ متوقع مسائل کے بارے میں پیشن گوئی کرنے کی اجازت دیتی ہے تاہم تبدیلیاں ہمیشہ خطرے سے خالی نہیں ہوتی اور جب چیزیں غلط ہوتی ہیں تو اس وقت سب کچھ ٹھیک بھی نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف اس طرح کی اختراعات اور ایجادات زندگی کو بہتر اور آسان بنا سکتی ہیں اور اس کے علاوہ جس کے پاس یہ اختراعات و ایجادات ہوتی ہیں وہ دوسروں پر اقتصادی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی طور پر غلبہ پاتا ہے۔ برتری کا احساس یا مسابقت کا احساس جو انسانی زندگی سے جڑا ہوا ہے وہ حیوانی جبلتوں کو ابھارتا ہے۔ اور جب انسان اخلاق سے عاری ہو تو یہ چیز علم کے استحصال کا باعث بن جاتی ہے اور دوسروں کو اس کے استعمال سے نقصان کا ذریعہ بھی میسر آجاتا ہے۔ پس یہ ایک فاصلہ ہے علم کی طاقت رکھنے والے اور اس سے محروم انسان کے درمیان ۔
نمایاں قوم کے حکمرانوں نے ہمیشہ عالم اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے ذہین وفطین دماغ کو ایجادات اور اختراعات کے لیے استعمال کیا اور انہوں نے مختلف قسم کی بیماروں کی علاج بھی دریافت کیا اسی طرح انہوں نے اپنی سہولت اور آسائش کے لیے ٹیکنالوجی بھی بنائی اسی ترقی کی وجہ سے وہ قدرتی ٖآفات کی پیش گوئی کرنے کے قابل ہوئے اور بہتر رہائش اور تفریحی سہولیات بھی میسر لا سکے۔ پس اس طرح انہوں نے کائنات کو دریافت کرنے کا ذریعہ بنایا پھر انہی ایجادات نے ان کے معیار زندگی کو تبدیل کیا اور بہتر صحت اور دیکھ بھال کی سہولتیں فراہم کیں۔ وہ اچھے تعلیمی ادارے اور تحقیقی ادارے بنانے میں کامیاب ہوئے جس سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے، وسائل کو فروغ ملا اور اپنی ایجادات سے انہوں نے دولت حاصل کی اور انہی چیزوں کی وجہ سے وہ عالم پر تسلط حاصل کرنے میں کامیاب ہوئےاور ترقی پذیر ملک فکری اور تکنیکی بقاء کے لیے ان کے محتاج ہوگئے۔ ان کے تسلط کے پیچھے اہم کامیابیوں میں سے ایک وہ نظام ہے جو تھنک ٹینکس (Thinks Tanks) کے ذریعے حاصل شدہ مہارت سے مہیا ہوا جو کہ ایک متحد نظام کی سرپرستی میں خاص حکمت علمی کے ساتھ اور خاص منصوبہ بندی کے ساتھ چلتا اور کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔
ایک کامیاب قوم اکیڈمی کے سکالرز کو منتخب کرتی اور اپنے ساتھ رکھتی ہے نیز انہیں وسائل فراہم کرتی ہیں اور انہیں کامیابی کےمواقع مہیا کرتی ہے۔ اخلاقی ضابطوں کو مرتب کرتی ہے اور ان کے ذریعے اقربا پروری اور جعل سازی کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ ایک کامیاب قوم اپنے کامیاب افراد کی حوصلہ افزائی کرتی، انہیں تسلیم کرتی اور انہیں انعام سے نوازتی اور وہ پورے تعلیمی تحقیقی نظام کو شراکت داری میں ابھرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس طرح نجی فنڈز اور صنعت کے ذریعے عام لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس نظام کے چلانے والوں کو اپنی اجتماعی حکمت عملی پر یقین ہونا چاہیے اور جو لوگ فائدہ اٹھانے والے ہوں ان دونوں کو مالی طور پر فلاح و بہبود اور ترقی کا احساس بھی ہو۔
وہ نظام جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے گویا وہی اس عمارت کی بنیاد ہے جس پر مغربی تعلیمی، تحقیقی اور اختراعی نظام اپنے معاشی اصولوں کے ساتھ قائم ہےتاکہ ان کو اقوام عالم کے لیے رہنما اور معاشی مرکز بنایا جا سکےجبکہ یہ صورت حال تیسری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک میں اس کے بالکل برعکس ہے جہاں نہ کوئی نظام موجود ہے اور نہ ہی سمت، مقصد اور جلد ترقی و تعمیر کا کوئی احساس ہے۔
ان کوتاہیوں کی وجوہات بہت سی ہیں جن کے لیے شاید ایک الگ موضوع درکار ہو لیکن یہاں یہ کہنا کافی ہے کہ اس طرح کی صورت حال ہمیشہ سے نہیں تھی بلکہ مسلمانوں کا سنہری دور دیکھا جائے تو مسلمانوں نے نہ صرف دنیا کو ایجادات اور اختراع کی راہ دیکھائی بلکہ وہ مغربی ممالک جو تعلیمی، تحقیقی اور ایجادات کے بارے میں آج جانتے ہیں انہیں بھی مسلمانوں نے ہی پڑھایا۔ یہاں ایک سوال یہ ہے جو کہ اسلامی دنیا میں اکثر پوچھا بھی جاتا ہے کہ اگر سائنس اور ایجادات کی تقلید کرنا قرآن اور اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے تو پھر سائنس اور ایجادات ان معاشرے میں ہی کیوں ہیں جہاں پر لوگ خدا کو نہیں مانتےاس طرح کے سوالات Robert Reilly اور دوسرے لوگوں کے ذریعے بیان کیے گئے تاکہ مسلمانوں کی وہ بالادستی ختم ہوجائے جو کہ مسلمانوں نے اپنے سنہرے دور میں حاصل کی تھی۔ چنانچہ Robert Reilly بیان کرتے ہیں کہ اس طرح کی ذہنیت مسلمانوں کی فتح مندی کے احساس کو ختم کر دیتی ہے جو کہ ان کو علمی، اختراعی، ایجادات اور دریافتوں کے ذریعے حاصل ہو گیا تھا اور جنہوں نے ہر چیز کو اللہ کی مرضی کے ساتھ نتھی کیا ہوا تھا۔ اس طرح کی ذہنیت اب بھی اسلامی دنیا میں پائی جاتی ہے جو مغربی نظام تعلیم تحقیقی کوششوں، سائنسی تجربات ، ثقافت اور اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہے۔ چنانچہ ان غلط نظریات کے باوجود اگر کوئی شخص غور سے قرآن کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ ہماری توجہ نشانیوں کی طرف مبذول کراتا ہے سائنس کی طرف نہیں۔ جبکہ سائنس بھی نشانیوں ہی پر منحصر ہے۔ یہ بات صرف اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ہی درست نہیں ہے بلکہ یہ تمام مذاہب اور عقائد کے حوالے سے ہیں لہٰذا جو لوگ انجیل یا قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں کہتے ہیں کہ سائنس کا مذاہب کے ساتھ ٹکراؤ ہے انہوں نے درحقیقت اپنے مذہب اور عقیدے کو صحیح طریقے سے سمجھا ہی نہیں ہے بھلا قرآن سے بڑھ کر کسی اور مذہب اور عقیدے میں علم کے بارے میں تاکید کہاں بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح اسلام سے بڑھ کر کسی اور مذہب میں علم کے حاصل کرنے کی تاکید نہیں آئی ۔ چنانچہ قرآن مجید میں “علم” 140 مقامات پر، العلم 27 مقامات پر “علم” اور اس سے متعلق الفاظ 704 مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ جبکہ کتاب ، قلم ، سیاہی جیسے الفاظ کی تعداد بھی تقریباً انہی کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ “لکھنے” سے متعلق الفاظ 319 آیات میں وارد ہوئے “علم” کو نور قرار دینے کی بھی بہت ساری آیات ہیں۔ لہٰذا علم ایک خاص مقام رکھتا ہے اور اس کے مترادف روشنی، حکمت وغیرہ بھی بیان ہوئے ہیں۔ قرآن خود دعویٰ کرتا ہے کہ اس کائنات میں تمام چیزوں کا علم قرآن میں موجود ہے۔ اس مرحلے پر قرآنی آیات سے متعلق گفتگو کرنا مقصود نہیں جبکہ سائنسی علوم مذہبی توثیق پر منحصر نہیں ہیں اور نہ ہی مذہبی عقائد سائنسی توثیق کے متلاشی ہیں ۔
واضح رہے کہ جب آٹھ سے بارویں صدی کے عرصے میں مسلمانوں نے اپنے عقائد کو قرآن کے مطابق لیا تو بھی وہ لوگ صرف ایک ہی شعبہ میں ماہر نہیں تھے بلکہ وہ لوگ علوم کے لحاظ سے ہمہ جہت صلاحیتیں رکھتے تھے اسی لیے انہوں نے نہ صرف دنیا کو تبدیل کیا بلکہ ایک چراغ کی ماننداس وقت روشنی کی جب مغرب تاریک دور سے گزر رہا تھا اسی طرح انہوں نئے نئے علوم تخلیق کیے اور نئی نئی ایجادات شروع کی اس طرح انہوں نے ہر شعبہ میں ترقی کے نئے نئے راستے دریافت کیے اس کے باوجود انہوں نے اپنے عقائد کو نہیں چھوڑا بلکہ ان کے عقائد اور بھی مضبوط ہو گئے کیونکہ وہ لوگ انسانیت کی خدمت کو مذہب کا جوہر سمجھتے تھے۔ انہوں نے تجربات کے لیے معیار مقرر کیے اور ایسے تجرباتی ڈیزائن بنائے جو کہ اہل مغرب کے نظام تعلیم، تحقیق اور دریافت کی بنیاد بنے۔ جبکہ تمام سائنس دان اور سکالرز نے اس سنہری دور میں بہت کچھ کیا اور اپنا اپنا حصہ ڈالا پھر مغربی دنیا ان سے نقل کرتی گئی ان سائنسدانوں میں سربر آوردہ نام جابر بن حیان کا ہے۔
اس مقالے کاباقی حصہ سائنسدانوں کی ان خصوصیات کے بارے میں ہے جو کہ جابر بن حیان نے بیان کی ہیں اور یہ کہ انہیں کس طرح اپنے متعلقہ مضامین کی بابت رجوع کرنا چاہیے، ایک سائنسدان کی زندگی میں اس کا ایمان کیا کردار ادا کر سکتا ہےاور حکومتیں، مذہبی لوگ اور معاشرہ ایک سائنسدان کو کامیاب اور بااختیار بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہے۔
اس مرحلے پر اکیڈمیز اور تحقیقی گروہ کے بارے میں کچھ تجاویز بھی مہیا کی گئی ہیں کہ وہ کس طرح ان لوگوں کو قائل کرسکتے ہیں جو سائنس اور ایجادات وغیرہ کو بے سود سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ مغربی دنیا نے ممکنہ طور پر ان سفارشات سے کیسے فائدہ اٹھایا جو کہ بنیادی سائنسی اصول ہیں اور جن کے ذریعے انہوں نے اپنی تہذیب کو تشکیل دیا جبکہ اس کے برعکس مسلمانوں نے ارادی اور غیر ارادی طورپر ان اصولوں کو نظر انداز کیا جس کے نتیجہ میں وہ باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔
جابر بن حیان جنہوں نے سائنس کے سنہری دور کی بنیاد رکھی ان کے والد حیان الاذدی عطار اور دوا فروشی کا کام کرتے تھے ان کا تعلق عرب کے جنوبی قبیلے الاذد سے تھا تاہم وہ کوفہ کے ایک قصبہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ ان کے والد سیاسی معاملات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے چنانچہ وہ بنوعباس کے ایک فعال حامی بن گئے اور انہوں نے بنوامیہ کے تختہ الٹانے میں ان کی مدد کی۔ انہیں سیاسی مشن کے طور پر طوس بھیجاگیا جہاں پر سنہ 721،722 میں جابر کی ولادت ہوئی۔ جابر کی ولادت کے فوراً بعد سیاسی کشمکش کے نتیجے میں ان کے والد کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کا سر قلم کر دیاپھر یتیم جابر حالات کے الٹ پھیرمیں دوبارہ عرب آگئے جہاں پر انہوں نے قرآن، الٰہیات اور دوسرے مضامین Herbic نامی شخص سے پڑھے پھر جواں سال جابر نے اپنے آپ کو عظیم مذہبی استاد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسلک کر لیا جہاں امامؑ تقریباً 4500 طلباء کے لیے کلاسسز کا اہتمام فرمایا کرتے تھےجبکہ اس وقت کے دوسرے ذہین و فطین لوگ بشمول امام ابوحنیفہ نے بھی امام کی شاگردی اختیار کر رکھی تھی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہونہار شاگردوں نے اسلام کے سنہری دور کی بنیاد رکھی اگرچہ آل نبی ؑ سے تعصب رکھنے والے کچھ مسلمانوں کی یہ متعصانہ رائے بھی ہے کہ یہ نقطہ بحث طلب ہے کہ جابر امام جعفرصادق علیہ السلام کے شاگرد بھی رہے جبکہ ایک عربی متن کے بغور مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہیں کہ جابر نے واضح طور پر کہا ہے “کہ میں مقروض ہوں امام جعفر صادق علیہ السلام کی تعلیمات اور علم کا ” جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جہاں پر کلاسسز لیتے تھے وہاں پر یہ تحریر تھا : “یتیم وہ نہیں ہے جس کے والد اس دنیا سے وفات پا گئے بلکہ یتیم وہ ہے جو علم سے محروم ہے۔”
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے دروس میں فقہ سے لے کر فلسفہ تک اور فلسفے سے لے کر سائنس تک پڑھائے۔ اس وقت حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک کھلی بحث کا آغاز کیا جو کہ ایک غیر روایتی کام تھا انہوں نے اپنے طلباء اجازت دی کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں اور عقائد میں کھلے ذہین کے ساتھ بحث کیا کریں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حضورﷺ کے خاندان سے تھے اور بلاشبہ آپؑ کی ذات قرآنی اور اسلامی تعلیمات کی آئینہ دار تھی اس کے باوجود انہوں نے اپنے شاگردوں کو نا صرف یہ اجازت دی کہ وہ اپنے عقائد و مذہب کے بارے میں سوال اٹھائیں بلکہ ان کو ایک آزاد فکر کے ساتھ سوچنے اور تمام مضامین پر کھل کر بات اور بحث کرنے کی ترغیب دی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تقریباً تمام علوم پڑھاتے تھے لیکن آپؑ نے سائنس کے دروس کو اہم مقام پر پہنچایا آپؑ اپنے شاگردوں کو ہدایت فرماتے کہ ہر چیز کو لکھو اور انہیں کتابت کرکے کتاب کی شکل دو۔ آپؑ نے انہیں انتباہ کیا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انہی کتابوں کی ضرورت ہوگی جو کہ ان علوم سے بھری ہوئی ہیں۔ اسماعیل الفاروقی اور لوس لمیا الفاروقی کے نزدیک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خواہش پر جابر نے ایک ایسا کاغذ ایجاد کیا کہ آگ اور سیاہی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی اس کے علاوہ اس کاغذ کی تحریر رات کے وقت بغیر روشنی کے پڑھی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک ایسا محلول ایجاد کیا جسے لوہے پر لگایا جاتا تو وہ زنگ سے بچ جاتا تھا اور اگر اسے کپڑوں پر لگایا جاتا تو پانی کپڑے کے اندر نہیں جاتا تھا ۔ انہوں نے اپنے تحصیل علم کے دوران تصوف کا مطالعہ کیا جس کے بعد امامؑ کے دروس ہی کی وجہ سے انہیں کیمیا سے متعلق دلچسپی ہوئی چنانچہ اس عرصے میں انہوں نے امامؑ سے طب سمیت تمام علوم سیکھے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جابر ہی نے تجربہ کا نظریہ شروع کیا اور نظریاتی علم کو تجربہ کے اچھے انداز میں ٹیسٹ کیا۔ چنانچہ اس وقت کے تمام کیمیا دان مسلمانوں نے اعتراف کیا کہ جابر کیمیا کے شعبے میں ان کے آقا ہے۔ اسی بنا پر عربی کی شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو کہ جس میں جابر کا نام کیمیا کے بانی کے طور پر مذکور نہ ہو۔ Richard Russel لکھتا ہے: جابر کمال کا مجموعہ تھے وہ ہمہ جہت علم رکھتے تھے وہ کیمیا دان، ماہر فلکیات، نجومی، انجینئر، جغرافیہ دان، فلسفی، ماہر طبیعات اور ماہر طب بھی تھے۔ آج کے دور میں ان مختلف شعبوں میں ماہرین کا ملنا محال ہے لہٰذا یہ بہت اہمیت کی بات ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ایجادات، مشین کے ذریعے سیکھنا، روبوٹک اور طبی میدان میں تحقیق اور ایجادات کے لیے آج کے اہل علم بھی انہی سائنسدانوں سے علوم اخذ کرتے ہیں جو اسلام کے سنہرے دور کے سائنس دان تھے۔
“جابر کے استاد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں چنانچہ جابر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “میرے آقا نے مجھے کیلشیئم، بخارات اور کیمیا کے بارے میں جو کچھ سکھایا وہ میرے آقا ہی کی طرف سے ہے” جابر نے اکثر اپنے مقالے اس طرح شروع کئے میرے آقا۔ میری حکمت کے امیں! آپ نے ایسا کہا یا آپ نے مجھے سکھایا۔ “
جابر کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے سینکڑوں کتب لکھیں۔ اس مقالے میں ہم جابر سے منسوب ان خصوصیات کا ذکر کریں گے جو کہ ایک سائنسدان کے لئے ضروری ہیں اور آگے جا کر ہم ان اصول اور خصوصیات کے بارے میں لکھیں گے کہ موجودہ دور کے سائنسدانوں پر ان خصوصیات اور اصولوں کو کس طرح منطبق کیا جا سکتا ہے۔
ایک سائنسدان کی کیا خصوصیت ہونی چاہیے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہےکہ اپنی تمام کتب میں جابر نے سائنسدان اور سکالر کے لئے فنکار (Artist) كا لفظ استعمال کیا۔ پس ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ایک سائنسدان اور ایک فنکار کی کیا خصوصیت ہونی چاہئے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ جابر کی تمام کتابوں میں سائنسدان اور سکالر کو آرٹسٹ کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم اس مقالے میں موجودہ وقت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ہم نے فنکار کی جگہ سائنسدان کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان دو کتابوں میں The Sum of Perfection or the Perfect Magisteryاور The Investigation of Perfection انهوں نے سائنسدانوں کی خصوصیات کو بیان کیا ہے کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اور وہ تحقیق اور ایجادات سے متعلق امور کو کیسے انجام دیں گے۔
جابر لکھتے ہیں کہ وہ شخص جس میں قدرتی طور پر قوت اختراع نہیں اور وہ تجسس کا رجحان بھی نہیں رکھتا جبکہ اس میں فکری کج روی بھی ہو تو اسے سائنس کے شعبے کو اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک فطری تجسس اور قدرتی قابلیت کے ساتھ جہاں بینی کرنا سائنسدانوں کی بنیادی خصوصیات میں سے ہے۔ فطرت کے بارے میں تجسس اور ان کی خصوصیات اور عمل میں دلچسپی ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ وہ شخص جو ان صفات سے عاری ہو وہ سائنس کے اصل مآخذ تلاش نہیں کر سکتا۔ جابر مزید بیان کرتے ہیں کہ بہت سے ایسے اکھڑ مزاج لوگ ہیں جن میں لچک اور اختراع کی صلاحیت اور بصیرت سرے سے نہیں ہوتی اور جن میں تعلیم کی بنیادی سوجھ بوجھ بھی کم ہوتی ہے انہیں سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے یہاں تک کہ وہ کسی آسان نظریے کو بھی نہیں سمجھ پاتے تو اس طرح کے لوگ سائنس کے شعبے سے تعلق نہیں رکھ سکتے۔ البتہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دانشورانہ نظریات کو قبول کرتے ہیں اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں اس کے علاوہ وہ سچائی کے ملنے اور کسی خاص سوال کے جواب ملنے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود ان کے استفسار کی منطق عموما ًعقل سے خالی ہوتی ہے اور غلطی سے بھری ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ ان کا کام فطرت کے بنیادی اصولوں کے مطابق بھی نہیں ہوتا اور اس کمی کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ ان کا دماغ سوچ اور منطق اس خلا سے دھندلایا ہوا ہوتا ہے جو کہ بنیادی سوچ، سوجھ بوجھ اور علمی پس منظر سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ موقع پرست سکالر تعصبات سے بھی کام لیتے ہیں اور کسی نظریے کے برحق ہونے یا اس کے برخلاف ہونے میں طرفداری کا نظریہ رکھتے ہیں پھر یہ کہ یہ لوگ ان حقائق کا ادراک نہیں کر پاتے جو قدرت نے اپنے اندر چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔
جابر کہتے ہیں کہ تمام سائنسی کوششیں ایک اچھی سوچ اور اچھے مفروضے پر مبنی ہونی چاہئے اور انہیں آلودہ سوچ پر مبنی نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ انہیں پیشگی تصورات اور ذاتی تعصبات سے بھی بالا ہونا چاہئے۔ وہ آزاد سوچ، فکر اور تحقیق کو منطقی طور پر ڈیزائن کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو کہ معقولیت، طے شدہ مقاصد اور متوقع نتائج پر مشتمل ہو۔
بدقسمتی سے یہ چیزیں اسلامی دنیا کے تحقیقی اداروں اور تعلیمی اداروں میں پڑھائی نہیں جاتی جس کے نتیجے میں ناقص تحقیق، غیر معیاری اشاعت، کاپی پیسٹ اور محدود اختراع کی کوششیں سامنے آجاتی ہیں۔ جابر بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے خیالات اور فکر ڈگمگا جاتی ہے اور وہ ایک پراجیکٹ سے دوسرے پراجیکٹ کی طرف آتے جاتے رہتے ہیں اور ان کا دل و دماغ ان کے سمت میں ہر وقت تبدیلی لاتا رہتا ہےوہ لوگ کسی واضح دلیل اور کچھ سوچے سمجھے بغیر اس پراجیکٹ کی طرف چھلانگ لگادیتے ہیں جو اس وقت زیادہ چل رہا ہوپھر یہ بظاہر سائنسدان اپنی پچھلی سرگرمیوں کو ادھورا چھوڑ کر ایک طرف سے دوسری طرف چھلانگ لگاتے ہیں اور اس طرح وہ لوگ اپنے پورے کیئریر میں کرتے رہتے ہیں۔ پس یہی موقع پرستی اور متزلزل فطرت ان کو غیر فعال اور کمزور بنا دیتی ہے اور اس طرح کوئی بھی چیز ان کے کیئریر میں مکمل نہیں ہوتی پس جو کچھ بھی یہ لوگ مکمل کرنا چاہتے ہیں وہ اکثر نا مکمل بکھرا ہوا ہوتاہے چنانچہ ایک اہم پیغام جو انہوں نے ہر دور کے سائنسدانوں کو دیا ہےوہ یہ ہے کہ ایک کامل سائنسدان کے لیے تخلیقی قوت کے ساتھ ساتھ ثابت قدمی بھی ضروری ہے۔ مزید برآں انہوں نے بیان کیا ہے کہ کچھ لوگ سوائے فرضی تخیل پُرفریب فکر اور بچوں جیسی سوچ رکھتے ہیں اور ان میں سچ اور اور ان کی نشانیوں کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی انہوں نے ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو لوگ سائنس کو بے سود اور فضول سمجھتے ہیں ۔
جابر کے نزدیک نظریہ اور حکمت ایک سائنسدان کی کامیابی کی کنجی ہے لیکن یہ نظریہ اور حکمت منطقی بنیادوں پر ہونی چاہیے اور من گھڑت اور وہم زدہ خیال پر مشتمل نہیں ہونی چاہیے۔
جابر بن حیان ان لوگوں کے بارے میں بھی لکھتے ہیں کہ جو اپنی خواہشات نفسانی کے غلام ہیں اور یہ لوگ پیسہ بنانے کے لیے سائنس کے دلدادہ ہیں۔ اسی لیے یہ لوگ سائنس کی تعریف تو کرتے ہیں لیکن وہ اپنا ذہن تبدیل کرنے سے قاصر ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود سائنس اور تحقیق کو یہ لوگ اہمیت دیتے ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اس راستے پر چل پڑتے ہیں حالانکہ ان کا لالچ اور پیسے بنانے کے خواہش انہیں امیر نہیں بناتی اور نہ ہی وہ اپنے کام سے مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ سائنس کا فن ان کو نہیں آتا تو پھر بھلا ایک جاہل اور غافل شخص کس طرح ان مقاصد کو بآسانی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ پُرمغز سفارشات آج کے دور کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہم جن کو تربیت دیتے ہیں ان کو مسلسل باور کراتے رہیں کہ ادویات اور معالج صرف مریضوں اور مستحق لوگوں کے لیے ہیں لہٰذا یہ منافع کمانے کا ذریعے نہیں ہے جبکہ یہ (منافع) اس کے ہمراہ خود بخود آجاتا ہے۔ اس کے برعکس ان دنوں ہمارے صنعتیں، ادویات بنانے کے کارخانے بنیادی طور پر سرمایہ دار لوگ ہی چلاتے ہیں جو ان جگہوں پر پیسہ خرچ کرتے ہیں جہاں سے انہیں زیادہ منافع ملنے کی توقع ہوجبکہ معاشرے میں جذبہ خدمت اور ہمدردی نہ ہونے کی وجہ سے عوام مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جیسے کرونا (Covid-19)کینسر، سپربگس اور اعصابی بیماریاں وغیرہ۔
چوتھے باب میں جابر نے سائنس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ہٹانے کے طریقے کے بارےمیں بتایا ہے۔ انہوں نے اس بات کی طرف نشاندہی کی ہے کہ خالص اور ذہین دماغ جو کہ سائنس کے لیے ضروری ہے وہ اکثر انتہائی غربت میں پیدا ہوتا ہے اور ان کا جوش اور ولولہ اور علم میں خاص مقام حاصل کرنے کی خواہش ان کی غربت ان سے چھین لیتی ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ مالی مشکلات کی وجہ سے سائنس سے محبت کرنے والے بہت سے سائنس دان اس میدان سے باہر چلے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہم باصلاحیت گروہ سے محروم ہو جاتے ہیں وگرنہ یہ لوگ اچھے انداز میں اپنی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ یہ مشکلات زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں پیش آتی ہیں خاص طور پر اسلامی دنیا میں، جہاں GDP کا صرف 0.4 فیصد تعلیم، تحقیق اور تخلیقی سرگرمیوں پر خرچ ہوتا ہے۔
یہ طے ہے کہ روشن دماغوں کے علاوہ سائنسی ترقی کے لیے جدید ترین آلات، سازوسامان اور دیگر سہولیات کی بھی ضرورت ہوتی ہےجو اسلامی دنیا میں بہت کم فراہم کی جاتی ہیں۔ پس جب تک حکومت اور دیگر نجی ادرے ایک پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے تب تک اسلامی دنیا کی حالت تبدیل نہیں ہو گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ترقی پذیر اقوام ایک ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے ان کے ذہین اور فطین دماغوں کو کامیاب ہونے اور دیگر ترقی یافتہ ممالک پر انحصار سے آزادی میں مدد ملے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اسلام کے سنہری دور کے اوائل میں زکات، صدقات اور خیرات وغیرہ سے حاصل ہونے والے اموال کو تحقیق اور تخلیقی سرگرمیوں کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔
مزیدبرآں اس دور میں حکمرانوں اور دولت مند افراد نے عزت اور مالی فوائد فراہم کرنے کے لیے سائنس دانوں کی سرپرستی کی تھی جبکہ دوسرے دور میں فنڈنگ کو مدارس کی طرف منتقل کر دیا گیا جس کی وجہ سے بنیادی توجہ دینی علوم پر مرکوز ہو گئی اور یوں سائنس سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اس شعبہ کو خشک رکھا گیا۔
ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جو حالیہ وبائی بیماریوں کے ساتھ دنیا ڈی گلوبلائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے اور یوں عالمگیریت سے منہ موڑ کر غریب اقوام کو ان کے حال پر چھوڑا جا رہا ہے۔ ایسے میں اسلامی دنیا کو بیدا رکرنا اور جگانا ضروری ہے۔
جابر کہتے ہیں کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو تجسس رکھتے ہیں لیکن وہ تحقیق کے میدان میں دنیاوی مفادات کے لیے خود کو مشغول رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو مذہب سے بیگانہ رکھتے ہیں ایسے لوگ جو سیکولر ذہنیت رکھتے ہیں ان لوگوں سے سائنس خود اپنا دامن بچاتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے حکمرانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ خود بغیر کسی مقصد کے سائنس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اگرچہ اس پیرے سے (Passage)پوری طرح سمجھنا مشکل ہے تاہم ہم نے اس سے یہ نتیجہ اخذکیا کہ جابر نے جو بات کہنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ سائنس کے مطالعے کا مقصد ایمان پر مبنی ہونا چاہیےاور بعد میں انہوں نے اس موضوع کو تفصیل سے بیان بھی کیا اس مرحلہ پر یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ جابر نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ سائنس کا مقصد درحقیقت انسانیت کی خدمت کرنا ہے جس کا حکم طول تاریخ میں الہٰیات کے ذریعے دیا گیاہے ۔
اپنی کوششوں کے علاوہ، سائنس دانوں کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے کو بڑھانے کے لیے میدان میں دوسروں کی مدد بھی کرنی چاہیے۔ جابر نے نوٹ کیا کہ معتبر شہرت کے بغیر، انہیں سائنسی اجلاسوں اور اس شعبے کے ماہرین کے اجتماعات میں مدعو نہیں کیا جاتا۔ سائنسی اجلاسوں میں، اسکالرز کے ساتھ نشست فرد کو مزید تنقید کے ذریعے تجرباتی ڈیزائن میں خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی فراہم کر سکتی ہے۔ یہ تجرباتی ڈیزائن، کی گئی پیشین گوئیوں، اور تیار کردہ تشریحات کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر، دوسروں سے حاصل کردہ بصیرت اور تجزیات محققین کو متبادل امکانات اور حکمت عملیوں پر غور کرنے کی اجازت دیں گے جبکہ ان ممکنہ نقصانات کی نشاندہی کریں گے جو ڈیٹا کی غلط تشریح کا باعث بن سکتے ہیں۔ لہذا ، حاصل کردہ نتائج اور اس کی فطری دور اندیشی سے پیدا ہونے والے علم کو دوسروں کی طرف سے مستند ہونا چاہیے۔ جابر کا یہاں اہم پیغام یہ تھا کہ دوسرے ماہرین کی طرف سے فراہم کردہ آراء سے سائنس کے مکمل شدہ کام میں موجود خامیوں اور شاید کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے میں سائنس اور سائنس دان کو مدد مل سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، ماہرین کے جائزہ لینے کے عمل کے ذریعے مکمل ہونے والی تحقیق کو مضبوطی فراہم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں دوسرے ماہرین کے لئےاس کو قبول کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے، تنقید کی قبولیت، دوسروں سے جائزہ اور مشورہ لینے کے تصور کو اسلامی دنیا میں شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، سائنسی میٹنگز کی کمی اور قابل اعتبار مشارکتی جائزہ لینے کے عمل کی کمی وغیرہ نے تعلیمی اداروں کی مضبوطی اور اعلیٰ معیار کی سائنس تیار کرنے کی صلاحیت کو سنجیدگی سے نقصان پہنچایا ہے۔
“اگر اسلامی دنیا کو اپنے سنہرے دور کا دوبارہ دعویٰ کرنا ہے تو اس طرح کی فریبی ذہنیت کو کھولنے کی ضرورت ہوگی۔ سائنسدانوں کی ایک اور اہم خصوصیت جس پر جابر نے روشنی ڈالی وہ ان کی استقامت تھی، اور یہ کہ مسائل کے سامنے آنے پر کسی کو تاخیر برتنا یا سمت تبدیل نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ توجہ اور استقامت کی کمی، نئے علم اور دریافت کی تخلیق میں بدترین دشمن اور رکاوٹیں ہیں۔ مزید ان کا کہنا ہے کہ مناسب آلات کے ساتھ نقطہ نظر کو سادہ رکھنا ہی کسی تجربے کے کامیاب نتائج کی کلید ہے۔کہاوت ہے کہ [“ایک پتھر ، ایک دوا”] انہوں نے سفارش کی کہ بنیادی ضروریات پر سمجھوتہ کیے بغیر جو کہ اصل تجرباتی ڈیزائن کا ایک اہم حصہ ہے پیچیدگی سے گریز کرنا چاہیے اور تجرباتی ڈیزائن کو سادہ رکھنا چاہیے ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کسی کو کبھی بھی کونے نہیں کاٹنا چاہئے – سوائے غیر ضروری اقدامات اور ضرورت سے زیادہ کام کرنے کے۔ اس کے بعد، اس نے کہا کہ انتہائی تحقیق کرنے والے کو مستعد ہونا چاہیے اور حتمی نتائج تک اپنے تجربے میں صبر کا مظاہرہ کریں ، کونے نہیں کاٹنا چاہئے یاکوتاہیوں کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔”
“اس کی مثال اس نے ایک ایسے فرد کی دی جس کے پاس نیا علم پیدا کرنے اور غیر معیاری پروڈکٹ سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ جابر نے مشورہ دیا کہ یہ محقق کو مایوسی کی طرف لے جائے گا اور اس کی ساکھ داغدار ہو گی۔ انہوں نے زور دیاکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک سائنس دان کو نظریاتی پس منظر، بنیادی مراحل، اور اس شعبے سے متعلق اصولوں کو اچھی طرح جاننا چاہیے۔ وہ لوگ جو شروع سے تجرباتی ڈیزائن کے نتائج کو نہیں جانتے یا اس کی توقع نہیں کر سکتے وہ اختتام کو نتیجہ خیز نہیں پائیں گے۔ جابر نے کہا، “میں نے اپنے کام میں ان بنیادی پروٹوکولز اور اقدامات کو واضح طور پر بیان کیا ہے جو اس سفر پر نکلنے والا کوئی بھی شخص اس مخصوص فیلڈ کے لیے ضروری سمجھے گا”۔”
ایک سائنس دان کی ایک اور اہم صفت جس پر جابر زور دیتے ہیں وہ مزاج کے نظم و نسق کا معیار ہے کہ کسی کو کبھی بھی نرم مزاجی نہیں کھونی چاہیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس کا نتیجہ نہ صرف ان کے کام بلکہ ان کی ساکھ کو بھی تباہ کرے گا۔ ہماری نظر میں، یہ ایک سائنس دان کی اس کی تکنیکی مہارت سے بالاتر ایک لازمی صفت ہے ۔ مزاج کے انتظام کا فقدان نہ صرف تحقیقی ماحول کو زہریلا بنا دیتا ہے بلکہ کھلے مباحثے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، تعمیری تنقید کو روکتا ہے، اور انتقامی رویے کی طرف لے جاتا ہے، جو سائنس کے پورے نظم و نسق کو ناپاک کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک پراجیکٹ پر کام کرنے والے سائنسدان کے پاس ماضی کی بصیرت اور دور اندیشی دونوں ہونی چاہئیں اور اسے تمام ممکنہ نقصانات اور متبادل حکمت عملیوں پر غور کرنا چاہیے۔ بنیادی وجوہات اور ان کے اثرات سے آگاہ ہو کر نتائج/ڈیٹا کا باریک بینی اور احتیاط سے تجزیہ کرتے ہوئے انہیں ہوشیار رہنا چاہیے اور پوری توجہ دینا چاہیے۔ مزید برآں، انہیں یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ نتائج جو نکلے ہیں وہ آخر اسی طرح کیوں نکلے؟ اور چیزیں ایسی کیوں ہونی چاہئیں جس طرح سے وہ پائی گئی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اگر کسی سائنسدان میں ان خصلتوں میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو اس شخص کو سائنس کے شعبے میں کام نہیں کرنا چاہیے۔
“جابر نے محققین اور تحقیق کرانے والوں کو فنڈنگ کی اہمیت اور فنڈز کے انتظام کی مہارت کے بارے میں بتایا۔ جابر نے مشورہ دیا کہ کسی کو اپنے پیسوں اور فنڈز کا انتظام احتیاط سے کرنا چاہیے اور بغیر سوچے سمجھے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کا نتیجہ نہ صرف سائنسی ناکامی کا باعث بنے گا بلکہ یہ طریقہ کار ایک فرد کو پیسے کے بغیر غریب اور بے سہارا چھوڑ دے گا۔ جابر کے لیے ایک اہم اور فکرطلب نکتہ یہ تھا کہ ایک سائنسدان کے لیے سب سے بری چیز یہ ہوگی کہ کوئی شخص صرف فنڈز ختم ہونے کی وجہ سے کسی بڑی پیش رفت کے مقام تک پہنچنے کے بعد ، تجربات کو یکسر ترک کر دے اور پھر اس کے لیے تحقیق کو سامنے لانے کے لیے کچھ نہ ہو (“بہت ہی بیچارہ ہے وہ شخص۔ اور افسوس کی بات ہے۔ “)۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اپنا سارا خزانہ مطلوبہ اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی بے وقوفانہ اور غیر دانشمندانہ طریقے سے ضائع کر دیتے ہیں اور تمام مناسب آلات، کیمیکل وغیرہ حاصل نہیں کر پاتے، وہ شروع سے ہی ناکام ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات انہیں تباہی کے دہانے پر لے جائی گی کہ اگر اپنے تمام فنڈز بغیر کسی فائدے کے خرچ ہوں یا اٹھائے گئے اخراجات کی ادائیگی کو یقینی نہ بنائیں۔ ایسے سائنسدان کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ اور خوفناک بات اس اہم سائنس کا کھو جانا ہوگا جس کی وہ تلاش میں تھا، جس سے معاشرے کی ترقی کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نےاس بات کی نشاندہی کی کہ اگر کوئی دستیاب فنڈز کو سائنسی کوشش کے لیے طے شدہ ٹائم لائنزاورسنگ میل دونوں کے تناظر میں چوکس رہ کر استعمال کرے تو کسی اور چیزکا خوف نہیں ہے۔ ایک اچھی منصوبہ بندی اور عملی کاروباری منصوبہ بندی سائنس کے جامع فن اور اس کے اصولوں کو سمجھنے کا ذریعہ ہوگی بصورت دیگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوگا۔”
“سب سے گہری بات جو اس نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ”یہ سائنس کسی غریب اور نادار آدمی کی مصاحب نہیں ہے بلکہ اس کی دشمن اور مخالف ہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اور سائنسی سرگرمیاں ان لوگوں کے لیے اچھی نہیں ہیں جو غریب ہیں – بلکہ یہ انھیں اپنا دشمن سمجھتی ہیں اور اسی کے مطابق انھیں سزا دیتی ہیں ۔ اس سے اخذ کرنے والا پیغام یہ ہے کہ تجرباتی اور مالی منصوبہ بندی دونوں ساتھ ساتھ چلتی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سائنسی کوششیں ان کی فراہمی کے لیے دستیاب وسائل کے اندر مطلوبہ نتائج فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح ، زیادہ تر مغربی فنڈنگ ایجنسیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ تمام درخواستوں کے ساتھ بجٹ مکمل طور پر مفصل ہو اورپیش کردہ گرانٹ کی تجاویز میں وقت کی نشاندہی کی جائے۔”
” جابر نے پھر ایک اہم بات کہی جو اسے موجودہ دور کے سائنسدانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سائنس دان کو اپنے کام کو “سب کیلئے جاننے والا اور سب سےبالا و اعلی ” یا حرف آخر نہیں سمجھنا چاہیے۔ جبکہ سائنسدان کو اپنے موجودہ کام کو مکمل کرنے اور ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے جن کا وہ جواب دینا چاہتا ہے، نیز کام کو ہمیشہ “جاری” سمجھا جانا چاہیے۔”
” انہوں نے نشاندہی کی کہ “ہمارا فن خدا کی مرضی پر منحصر ہے، اور جسے وہ چاہتا ہے اسے دے دیتا ہے، یا روک لیتا ہے۔ جو جلالی، عالی اور تمام عدل و انصاف سے معمور ہے؟ اور آپ کے نفیس کام کی سزا کے لیے، وہ آپ کے فن سے انکار کرتا ہے اور آپ کی غلطی کی وجہ سے دائمی بدحالی اور مصائب کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے سب سے زیادہ ناراض اور ناخوش ہے اس شخص پر (اسکے کام اور محنت کے اختتام پر) جوحق اور سچ کی نظر سے انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص کودائمی مشقت ، ہر طرح کی بدحالی، نقصان لذت اور نفع کے بغیر اپنی زندگی غم میں گزار نا پڑتی ہے۔” یہ سنہری دور کے عظیم سائنسدانوں میں سے ہر ایک کا گہرا بیان ہے جو اپنے عقیدے کو سائنسی عمل میں لایا – ایک طرف سائنسدانوں کو عاجز کر دیا، اور دوسری طرف علم کے متلاشیوں کو حوصلہ دیا کہ وہ اپنی فتح کو کبھی بھی حرف آخر نہ سمجھیں۔ یہ اس بحث کو بھی ختم کرتا ہے کہ آیا سائنس اور مذہب آپس میں موافق ہیں یا نہیں۔ اگر مذہب اور سائنس ایک ساتھ رہ سکتے ہیں تو یہ ایک ایسی دلیل ہے جس نے 12ویں صدی سے مسلم دنیا کی ترقی کو متاثر کیا ہے۔”
” ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم پیغام باقی ہے کہ درحقیقت علم کی فتح ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے لیکن مادر فطرت اپنے راز صرف ان لوگوں پر ظاہر کرتی ہے جو غور و فکر کرنے کی ہمت رکھتے ہیں اور جو اپنے عقائد سے قطع نظر غور و فکر کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جابر ان لوگوں کے خلاف لڑتے ہیں جو سائنس کو یا تو معمولی یا فضول سمجھتے ہیں۔ جابر اپنی “پہلی کتاب” کے دوسرے حصے میں ان خارجی عوامل، لوگوں اور شک کرنے والوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو سائنس کی راہ میں رکاوٹ ہیں یا اس کی اہمیت سے یکسر انکار کر سکتے ہیں۔ ان کاموقف ہے کہ ان کی غیر موثر تنقید کو ختم کرنا ضروری ہے، جو کہ سراسر جہالت پر مبنی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سائنس کے پہیے کو گھومنے ہی سے روک دیں۔”
“سائنس مخالف لوگ ان لوگوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں جو اتھارٹی رکھتے ہیں اور اعلی عہدوں پر ہیں، اس طرح محققین اور سائنس کے لیے رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں جس کا وہ مطالعہ کرتے تھے۔ اس باب میں یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہے کہ کس طرح جابر نے مختلف جانداروں میں حیاتیاتی فینوٹائپک/شکلی تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے دھاتوں اور معدنیات کے “ارتقاء” پر کھل کر بحث کی ہے۔ وہ یہاں سائنس کے شکوک و شبہات سے نمٹنے کے لیے جگہ مرتب کرتا ہے جن کو اس نے جاہل آدمی کہا اور پھر اس کے مطابق ذیل میں ان کے خدشات کو دور کیا۔”
الف:سائنس مخالف لابی
جابر نے اپنے دلائل اور خدشات بیان کرتے ہوئے کہا کہ شک کرنے والوں کا استدلال ہے کہ چونکہ مختلف عناصر کے مرکبات اور مرکبات اس قدر الگ اور منفرد ہیں – جس طرح ایک بندر انسان سے جس قدر ممتاز ہے کہ کسی انسان کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے کہ لیبارٹری میں ان کی اصل ساخت کو ترتیب دیں۔
یہی معاملہ معدنیات کا بھی ہے، اور چونکہ سائنس دان نہیں جانتے کہ یہ مرکب پہلی صورت میں کیسے وجود میں آئے، اس لیے تجرباتی اور عملی طور پر ان کا دوبارہ بیان کرنا ناممکن ہوگا۔ ناقدین نے یہ استدلال کیا کہ اگر مختلف عناصر، مرکبات، دھاتوں اور معدنیات کی ترکیبیں معلوم ہو جائیں تب بھی کوئی ان کو جمع کرنے والی صحیح مقدار کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ ان کا استدلال تھا کہ ان دھاتوں یا مرکبات کی ساخت انسانوں پر واضح نہیں ہوگی کیونکہ یہ سارا عمل پوشیدہ جگہوں جیسے بارودی سرنگوں اور غاروں پر ہوا تھا۔ اس طرح نہ صرف سائنسدانوں کو ان کی ساخت کا علم نہیں ہے بلکہ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ ابتدا میں یہ چیزیں کیسے وجود میں آئیں۔
مزید برآں، چونکہ مرکبات کی تشکیل کے لیے مخصوص درجہ حرارت، نمی، دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے – یہ سب کچھ سائنس دانوں کو معلوم نہیں تھا، لہذا انھیں لیبارٹری میں دوبارہ جمع کرنے کے ان کے دعوے فضول، معمولی اور غیر حقیقی ہوں گے۔ یہی معاملہ معدنیات کا بھی ہے، اور چونکہ سائنس دان نہیں جانتے کہ یہ مرکب پہلی صورت میں کیسے وجود میں آئے، اس لیے تجرباتی طور پر ان کا دوبارہ بیان کرنا عملی طور پر ناممکن ہوگا۔ فالو اپ دلیل کے طور پر، ناقدین نے استدلال کیا کہ اسی طرح کی سائنسی کوششوں کو ماضی کے کئی عقلمند لوگوں نے بھی تجربہ کیا تھا۔ اگر فطرت کو دہرانا ممکن ہوتا تو وہ کامیاب ہو جاتے۔انہوں نے مزید دلیل دی کہ ان کی ناکامی ایک اور اشارہ ہے کہ فطرت میں موجود چیزوں کو تجربہ گاہوں میں تجرباتی طور پر دوبارہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ فلسفیوں نے اس طرح کے امکانات کے بارے میں لکھا ہے لیکن چونکہ ان کے نظریات کی پشت پناہی کرنے کے لیے کوئی تجرباتی ثبوت نہیں ہے، اس لیے سائنس بذات خود ایک ایسا شعبہ نہیں ہے جس پر عمل کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، ان کی سائنسی کوششوں کی نفی کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ ماضی میں دوسرے ایسا کرنے میں ناکام رہے تھے، اس لیے لیبارٹری میں مرکبات، دھاتوں وغیرہ کو دوبارہ پیدا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
اپنے استدلال کے لیے، ناقدیں نے مزید دلیل دی کہ ماضی کے لوگوں کی فطرت کو دہرانے میں ناکامی پیسے کی کمی کی وجہ سے نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ان کی مالی مدد اس وقت کے بادشاہوں اور شہزادوں نے کی تھی۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سائنس اس طرح کے امتحان میں فضول سی شے ہے۔ مزید برآں، انہوں نے مزید دلیل دی کہ سائنس زیادہ تر مشاہدے پر انحصار کرتی ہے، جو کہ ہمارے حواس پر منحصر ہے، اور چونکہ فطرت کو ان کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا، اس لیے تجرباتی طور پر چیزوں کو دوبارہ بیان کرنا ناممکن ہو گا۔
“مادر فطرت اپنا جادو کھل کر دکھاتی تو وہ تبدیلی کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا۔ چونکہ لوگوں نے “بیل کو بکری میں تبدیل ہوتے ہوئے” یا کسی دوسری نسل کو ایک مختلف نسل میں تبدیل ہوتے نہیں دیکھا ہے نہ تو قدرتی طور پر نہ تجرباتی طور پر، لہذا، سائنسدانوں کے ذریعہ ان کو دوبارہ پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ دھاتیں اپنی منفرد صفات میں بہت مختلف ہوتی ہیں، ایک سائنس دان ایک دھات کو دوسری میں کیسے تبدیل کر سکتا ہے- خاص طور پر اگر کوئی نہیں جانتا کہ کوئی بھی نوع پہلی جگہ پر کیسے وجود میں آئی؟ مزید یہ کہ قدرت چیزوں کو ہزاروں سالوں میں مکمل کر دیتی ہے اور سائنس دان کے لیے لیبارٹری کی ترتیب میں انھیں دوبارہ ترتیب دینے کے لیے انھیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کی ضرورت ہوگی، جو ممکن نہیں ہے۔ لہذا، ان کا یہ کہنا مضحکہ خیز ہےکہ فطرت کو لیبارٹری میں دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔”
ب: سائنس کے ناقدین کے لیے جابر کا جواب
“سائنس کے خلاف ان کی مخالفت کے جواب میں، جابر نے کہا کہ حقیقتاً فطرت کو اس کی تمام پیچیدگیوں اور افعال کے ساتھ دہرانا ممکن نہیں ہے لیکن وہ اصول جن پر عمل کرنے کے لیے وہ دعوت دیتی ہے، ان کے نقوش کو تلاش کرنا یقیناً ممکن ہوگا۔ ان دلائل کے لیے کہ جو کہتے ہیں کہ دنیا کے فلسفیوں اور بادشاہوں نے اس قسم کی سائنس کی خواہش کی ہے لیکن ا نہیں نہیں مل سکی، جابر کہتا ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔ قدیم ماضی کے دانشمندوں نے اہم مشاہدات کیے، لیکن اپنے دور کے جاہل اور ناخواندہ لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے انھوں نے اپنے نتائج کو ظاہر نہیں کیا۔انہوں نے نہ تو جسمانی طور پر اپنے کام کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی جاہلوں کی قید کی وجہ سے اپنے نتائج اور دریافتیں لکھیں۔ پچھلے کسی بھی کام کے کتابی شکل میں نہ ملنے کی وجہ سے، حزب اختلاف نے انہیں وہ لوگ قرار دیا جنہوں نے سائنس کے فن کی کھوج میں کوئی کو شش نہیں کی۔مزید برآں، ماضی کے لوگوں کے اپنے کام مکمل نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان سائنسدانوں نے اپنے تجرباتی ڈیزائن اور آنے والے فیصلے میں ممکنہ طور پر غلطیاں کی ہوں گی۔ مادیات سے حیاتیاتی علوم کی طرف بڑھتے ہوئے، جابر نے کہا کہ جس وجہ سے ہم تجربہ گاہوں میں دھاتوں یا مرکبات کی تخلیق جیسی زندگی پیدا نہیں کر سکے وہ یہ ہے کہ پہلے اسکے لیے “روح” کے ادخال کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اس کے “تناسب یا مرکب۔” کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ یہ صرف سب سے اعلیٰ اور جلالی خدا ہے جو روح کے بارے میں جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی عظیم اور کامل حکمت کو کیسے پکارتا ہے ہمیں معلوم نہیں ہے (وہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کے امر سے ہے، لیکن تم لوگوں کو علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا) قرآن 17:85)۔ لہٰذا اس کا یہ بھی ایک استدلال ہے کہ بیل یا بکری کا کمال، دھات کے کمال سے زیادہ افضل اور غیبی ہے۔ شک کرنے والے کے اس استدلال کے مطابق کہ ایک نوع دوسری نسل میں تبدیل نہیں ہوتی، جابر نے جواب دیا کہ نوع دوسری حیات میں تبدیل ہو سکتی ہے۔”
خاص طور پر، جب ایک نوع کا فرد تبدیل ہوتا ہے، تو وہ دوسری نسل کا فرد بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک کیڑا جو قدرتی طور پر بھی اور اپنی فطری مہارت کے اعتبار سے بھی ایک مکھی/تتلی میں بدل جاتا ہے، جو اس کی اصل زندگی کی شکل سے مختلف ہے جس کے ذریعے یہ پہلی جگہ وجود میں آیا تھا۔ اسی طرح، ایک لاروا گلا گھونٹ کر شہد کی مکھی بن جاتا ہے، گندم کا تلخہ بن جاتا ہے، اور ایک کتے کا گلا گھونٹ کر کیڑے کی شکل میں بدلنا، تبدیلی کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح، اگرچہ ہم دھاتوں کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرتے ہیں بلکہ فطرت ہمیں اس کا منتظم بننے کی اجازت دیتی ہے۔
اس دلیل پر کہ مادر فطرت ہزاروں سال سے اپنا کام کرتی جارہی ہے پھر بھی انسان مختصر زندگی گزارتا ہے، جابر کہتا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ہم فطرت کی مکمل نقل نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کی تجدید کر سکتے ہیں، لیکن اس نے کچھ اصول مقرر کیے ہیں، جو ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ پورے عمل کو کافی حد تک مختصر کریں۔ درحقیقت، ایک وقت تھا جب پوری کائنات کو صرف چند دنوں میں تخلیق کرنے کا عمل تیز رفتاری سے جاری تھا (وہ شاید قرآنی آیات یا بائبل کا حوالہ دے رہا تھا جہاں خدا نے کائنات کو صرف چند دنوں میں تخلیق کیا تھا)۔
اس نے آگے کہا کہ اگر وہ اشیاء شروع سے اس طرح کی خصوصیات سے عاری ہوں، فطرت کے لیے بھی چیزوں کو حرکت میں لانا بہت زیادہ تیز رفتاری سے ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ جب ہم کسی کیڑے کو گلتے ہوئے کتے کی شکل میں نمودار ہوتے دیکھتے ہیں تو ہم فوری طور پر اس کی اچانک موجودگی کو کسی ستارے کے ساتھ نہیں جوڑتے ہیں، بلکہ یہ اردگرد کی ہوا یا دیگر وجوہات کے ساتھ جوڑتے ہیں جو اس کی پیدائش کا ممکنہ ذریعہ ہوتا ہے ان مشاہدات سے، ہم اس کیڑے کی پیدائش کو فطرت کا کام قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ اپنے کام کے لیے سب سے زیادہ قدرتی، موثر، اور آسان ذریعہ تلاش کرتا ہے – لیکن یہ اکثر ہمارے لیے مجہول رہتا ہے۔
ان لوگوں کے لیے جو اگرچہ سائنس کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ اسے کہاں سے تلاش کیا جائے (روح میں یا اجسام میں)، جابر نے کہا کہ سائنس کالا جادو، صوفیانہ، مافوق الفطرت یا مخفی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی مقدس مظاہر ہے۔ اس لیے اسے عقلمندوں سے پوشیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک عمومی اصول بنا دینا چاہیے کہ جاہلوں کو سائنس کی دنیا میں داخلے سے روک دیا جانا چاہیے،۔
آخر میں، جابر نے ایک بہت واضح دلیل، جواز فراہم کیا اور اس بات کا معیار مقرر کیا کہ سائنس کے فن میں کس کو شامل ہونا چاہیے، ان کے اوصاف کیا ہونے چاہئیں اور انہیں کیسے کام کرنا چاہیے۔ اس نے منطقی طور پر ان لوگوں کے خدشات کو بھی دور کیا جو سائنس کو فضول سمجھتے تھے اور ان سائنسدانوں کی نشاندہی کی کہ جنہیں وہ مادر فطرت کے رازوں کو ظاہر کرنے کے لیے نااہل سمجھتے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے، جابر نے اسلام کے سنہرے دور کی بنیاد رکھی، اور یہ ان کی تعلیمات، اصول اور معیار ہیں جنہیں اسلامی دنیا کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی سائنسی غلبہ کے شاندار دنوں کو واپس لایا جا سکے۔ تاہم، ان کی تجاویز اور سفارشات کا ثبوت اس انداز سے ظاہر ہوتا ہے جس کے ذریعے مغربی دنیا نے اپنی تحقیق اور اختراعی پالیسیوں کو تشکیل دیا جو اس کی دریافت کے انجن کو چلاتی ہیں۔
کیا موجودہ دور میں جابر کی سفارشات اہمیت رکھتی ہیں؟ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی نظام ایک تحقیق پر مبنی اور تجسس پر مبنی نصاب ہے جو نوجوانوں کے دماغوں میں ان کی دماغی نشوونما کے ابتدائی مراحل سے ہی ایک حیرت انگیز جذبہ پیدا کرتا ہے۔ کنڈرگارٹن سے لے کر پرائمری اسکولوں تک، ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ آزادانہ سوچ پیدا کریں، تنقیدی سوالات پوچھیں، پیشین گوئیاں کریں، فطرت اور اپنے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں غور کریں، اپنے خیالات کا اشتراک کریں اور کھلے دل سے غلط اور تضحیک کے خوف کے بغیر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جیسے ہی وہ ہائی اسکول اور یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں، مختلف شعبوں میں ان کی بنیادی طاقتیں جذبے کے ساتھ مل جاتی ہیں، اور انہیں کافی حد تک متعین اہداف اور مسئلہ حل کرنے کی مہارتوں کے ساتھ آزادانہ اہداف حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ انہیں مختلف شعبوں میں تحقیق کرنے کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ ان کے جذبوں کو مزید پروان چڑھایا جا سکے۔
گریجویٹ اسکول اور پوسٹ ڈاکٹریٹ ٹریننگ کے دوران ان کے علم کی بنیاد، تکنیکی مہارت، ذاتی، باہمی اور مواصلاتی مہارتوں کو بڑھانے کی صلاحیت کو مزید بڑھایا جاتا ہے۔ اس مرحلے پر، سپروائزرز اور دوسروں کی طرف سے ان کی رہنمائی زیادہ تر رسمی ہو جاتی ہے، اور وہ ایسے جملے سننے لگتے ہیں جیسے:
1. غلط ہونا ٹھیک ہے،
2. اگر آپ نے اسے ہر وقت درست کیا ہے تو شاید آپ غلط ہیں،
3. اگر آپ منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو آپ ناکام ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں،
4. لائبریری میں ایک دن آپ کے لیب میں تین مہینے بچائے گا،
5. اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی ناکامی کی شرح کو دوگنا کریں،
6. اصل بات یہ نہیں ہے کہ آپ کے پاس کیا ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے پاس جو ہے اس کے ساتھ آپ کیا کرینگے۔
7. ثبوت کی عدم موجودگی عدم موجودگی کا ثبوت نہیں ہے
8. معاشرے کی خدمت وہ کرایہ ہے جو آپ اس کا حصہ بننے کے لیے ادا کرتے ہیں،
9. دماغ ایک پیراشوٹ کی طرح ہے، یہ صرف کھلے رہنے پر کام کرتا ہے،
10 .اپنے خوابوں کو سچ کرنے کا بہترین طریقہ جاگنا ہے۔
ان تربیت یافتہ افراد کو اپنے مفروضے کو تجرباتی طور پر جانچنے، اپنا مکمل کام کمیٹیوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے ان کی منطق میں خامیوں اور ان کے نتائج میں خامیوں کی نشاندہی کرکے ان کے فکری عمل کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ ایسا موقع نہ صرف ان کی سائنسی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے بلکہ تعاون کو فروغ دینے اور مستقبل میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ایک اہم نیٹ ورکنگ کا کام بھی کرتا ہے۔
جابر نے یہی وہ خصائص بتائے ہیں جو ایک کامیاب فنکار/سائنس دان کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، حالانکہ اس نے رسمی طور پر اس طرح کے اقدامات نہیں کیے تھے۔ہم نہیں جانتے کہ سنہری دور میں تعلیم کا کوئی ایسا باقاعدہ نظام موجود تھا جس سے جابر 1-3,13، ابن سینا 28-30، الرازی23، کندی 34، ابن الہیثم 35 وغیرہ جیسے مفکرین اور ماہرین پیدا کیے جا سکتے تھے۔ لیکن چونکہ ان جیسے بہت سے لوگ تھے، اس لیے حیرت ہوتی ہے کہ کیا ہمارے موجودہ تعلیمی نظام کا مقصد جرنلسٹ کی بجائے ماہرین پیدا کرنا ہے۔ اپنے نوجوان ابھرتے ہوئے سائنسدانوں کو اپنے کیریئر کے شروع میں تربیت اور تیار کرنے کے بعد، زیادہ تر مغربی ممالک پھر ایک مرکزی فنڈنگ سسٹم بناتے ہیں، جس کی مدد صوبائی ایجنسیوں، نجی شعبوں، عوامی طور پر حمایت یافتہ خیراتی تنظیموں، انسان دوستی وغیرہ سے ہوتی ہے، تاکہ ان کی کامیابی میں مدد کی جا سکے۔ وفاقی طور پر مالی امداد سے چلنے والی تنظیموں میں جو ہم شمالی امریکہ میں دیکھتے ہیں ان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) اور (USA) میں نیچرل سائنس فاؤنڈیشن (NSF)، کینیڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ریسرچ (CIHR)، نیچرل سائنسز اینڈ انجینئرنگ کونسل آف کینیڈا ( این ایس ای آر سی کینیڈا، برٹش میڈیکل ریسرچ کونسل (ایم آر سی، یو کے)، بائیو ٹیکنالوجی اینڈ بائیو میڈیکل سائنسز ریسرچ کونسل (بی بی ایس آر سی، یو کے) اور دیگر۔ یورپی کمیشن (EU) وغیرہ۔ جبکہ NSF، NSERC اور BBSRC جیسے پروگرام بنیادی سائنسز اور انجینئرنگ میں دریافت پر مبنی تحقیق کی حمایت کرتے ہیں، CIHR، NIH اور MRC فنڈ پروجیکٹس صحت اور ترجمہ وغیرہ کے نتائج کے ساتھ وابستہ ہیں۔
ان اور ان جیسی دیگر سرمایہ کاری نے فنڈنگ کو ان کے بنیادی بجٹ کا حصہ بنا کر محققین کو مالی مدد فراہم کرنے کے عمل کی راہ کو ہموار کیا ہے، اس طرح مستحکم، مستقل اور مسابقتی فنڈنگ کو قابل عمل بنایا ہے۔ یہ ماڈل وقت اور حالات کی ضرورت کے مطابق ان خصوصی ضروریات اور اقدامات جیسے COVID-19 کے لیے فنڈنگ کو ہدف بنانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ تنخواہ کے سپورٹ پروگراموں کے لیے خصوصی فنڈنگ کے سلسلے بنائے جاتے ہیں جس کے تحت نئے تفتیش کاروں کو اسٹارٹ اپ فنڈز بھی فراہم کیے جاتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو اپنی اکیڈمیوں میں اسٹار سائنسدانوں کو بھرتی کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ تاہم، اس طرح کے پروگرام شمالی امریکہ کے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے کم ہو رہے ہیں، لیکن بعض اوقات، انہوں نے اس کے باوجود ان ممالک کی طرف بہترین اور روشن دماغوں کو راغب کرنے میں مدد کی۔ مثال کے طور پر، کینیڈا نے کینیڈا ریسرچ چیئر پروگرام شروع کیا تھا جس نے بہترین تنخواہ اور اسٹارٹ اپ فنڈز فراہم کیے تھے تاکہ کئی سو افراد کو راغب کیا جا سکے ۔ پچھلے دس سالوں میں بہترین اور ذہین سائنسدانوں کو کینیڈا میں راغب کیاگیا ۔ ان مواقع کا ہدف نوجوان اور تفتیش کاروں دونوں کے لیے تھا اور انہوں نے اس کی یونیورسٹیوں کے تحقیقی ماحول کو بڑھانے میں زبردست کردار ادا کیا۔
اسی طرح، کینیڈا کے بہت سے صوبے بہترین اور ذہین محققین کو راغب کرنے کے لیے بہترین سٹارٹ اپ اور سیلری پیکجز پیش کرتے ہیں، جس سے انہیں سنٹرز آف ایکسی لینس بنانے میں مدد ملتی ہے۔ بدقسمتی سے، کسی بھی اسلامی ملک میں اس جیسا کوئی پروگرام موجود نہیں ہے، خاص طور پر پاکستان میں، جس کے تحت نوجوان محققین کو حکومت یا نجی شعبے کی طرف سے توجہ اور مدد فراہم کی جا سکے۔ ایسا اقدام بہت ضروری ہے کیونکہ یہ نہ صرف بہترین ذہنوں کو مختلف تعلیمی اداروں کی طرف راغب کرتا ہے بلکہ تحقیقی ذہانت اور مہارت کو متنوع بنانے میں مدد کرتا ہے اور محققین کی تباہ کن نسل کشی کو روکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا فنڈنگ کے اقدامات نے صحت کے شعبے سے لے کر معیشت تک ان قوموں کی زندگی پر کیا اثر ڈالا؟ اس کا جواب اس وقت سامنے آتا ہے جب کوئی ان پاور ہاؤسز کا جائزہ لے کہ یہ قومیں عالمی سطح پر سائینسی قومیں بن چکی ہیں، جب کہ اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ علمی اور سائنسی دونوں محاذوں پر جدوجہد کر رہا ہے۔
پہلے درجے کے ممالک نے اپنے تعلیمی اداروں اور نصاب کو متنوع بنایا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ آنے والی دہائیوں تک مستقبل کے تمام چیلنجوں کے افق پر کام کرنے کے لیے مستقبل میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی نسل تیار کرسکیں۔ ان پروگراموں میں بین الضابطہ تحقیق، بائیو میڈیکل انجینئرنگ، صحت، مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، بڑا ڈیٹا، روبوٹکس، جین تھراپی وغیرہ شامل ہیں۔ اور فوکسڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور سنٹرز آف ایکسی لینس بنا کر مضامین کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اور کوالٹی کنٹرول کو یقینی بنانے کے لیے، حکومتوں کی طرف سے، گرانٹ دینے والی ایجنسیاں اور کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، جو ماہر پینلز کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے کے عمل کی نگرانی کرتی ہیں۔ یہ عمل عام طور پر منصفانہ اور تعصب اور اقربا پروری سے پاک ہوتا ہے اور جو بہتر کام کرتا ہے اس کا صلہ ملتا ہے۔
کمیٹیاں ایک چئیر مین ، ایک سائنسی افسر اور کم از کم تین ماہرین پر مشتمل آمنے سامنے ہوتی ہیں جو کسی بھی گرانٹ کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں اور اپنا آزادانہ جائزہ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک متفقہ سکور (0-5 کا پیمانہ – بالترتیب بقایا کے لیے قابل فنڈ نہیں) دیا جاتا ہے اور گرانٹس پر تفصیل سے بات کی جاتی ہے۔ اس کے بعد کمیٹی کے تمام اراکین سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس بحث اور گرانٹ کے بارے میں ان کے تاثرات کی بنیاد پر اپنے انفرادی اسکور دیں (انہیں گرانٹ اوپر یا نیچے کرنے کے لیے 0.5 اسکور دیا جاتا ہے) ۔ سائنسی افسر اکثر تمام بحث کو گرفت میں لے لیتا ہے، اور یہ تاثرات، دونوں ریفریز کے تفصیلی تبصروں کے ساتھ، پھر درخواست دہندہ کو فراہم کیے جاتے ہیں – اس سے قطع نظر کہ فنڈنگ کے لیے گرانٹ کی سفارش کی گئی ہے یا نہیں۔ ان تجاویز کے لیے جو فنڈ ناکافی سمجھاجاتا ہے، فیڈ بیک درخواست دہندہ کو اگلے مر حلےمیں اپنی تجویز پر نظر ثانی کرنے اور دوبارہ جمع کرانے میں مدد کرتا ہے۔
ایسا مضبوط عمل تعصب اور حسد کو کم کرتا ہے اور نظام کو منصفانہ اور شفاف بناتا ہے۔ اگر کسی گرانٹ کی مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے، تو رقم میزبان یونیورسٹی کو اضافی اوور ہیڈز (کینیڈا میں کل گرانٹ کا 20%) کے ساتھ منتقل کی جاتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یونیورسٹی کو محققین لیبارٹریز کے روزمرہ کے آپریشن میں مدد کے لیے کچھ فنڈز بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ جس میں بجلی، جانوروں کی دیکھ بھال کی سہولیات، پانی، بنیادی ڈھانچے کی دیکھ بھال وغیرہ شامل ہوتے ہیں)۔ تمام فنڈز اور ان کے پھیلاؤ کو تعلیمی اداروں کے ذریعے سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ فنڈز کے غلط استعمال یا فنڈز کے منصوبے سے رقم آگے پیچھے لے جانے سے روکا جا سکے۔ برعکس کینیڈا کے ، جہاں درخواست دہندگان کی تنخواہوں کی طرف کوئی گرانٹ فنڈز نہیں بھیجے جا سکتے، امریکہ میں، امیدواروں کو اپنی 9 ماہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی اجازت ہے (موسم گرما کے مہینوں کے علاوہ)، اور اکیڈمیوں کو بھی بڑے اوور ہیڈز مختص کیے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ کچھ معاملات میں 50% تک۔ اس طرح یہ عمل یونیورسٹیوں کو بہترین اور روشن ذہن رکھنے والے افراد کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور کرتا ہے جو اپنے متعلقہ تعلیمی اداروں کے لیے فنڈز حاصل کریں گے۔ موجودہ محققین کی مدد کے علاوہ، کینیڈا موسم گرما کے تحقیقی اقدامات کی بھی مدد جاری رکھتا ہے جس کے تحت تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے نوجوان اور ذہین طلباء کو اپنی پسند کی لیبارٹری میں کام کرنے کے لیے چار ماہ کی مدت میں فنڈ فراہم کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ مواقع ہائی اسکول کے طلبا تک بھی بڑھائے جاتے ہیں جس سے وہ کم عمری میں ہی سائنس سے روشناس ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی اسلامی ملک میں اس جیسی کوئی پیش قدمی موجود نہیں ہے، اور اس لیے ہم ان نوجوان ذہنوں کو ابتدائی طور پر ڈھونڈنے اور ان کے ذہنوں میں رغبت اور سائنسی تجسس پیدا کرنے سے محروم رکھتے ہیں۔
“تحقیقی پبلیکیشنز، کلاس روم ٹیچنگ، اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تربیت کے علاوہ، کچھ تعلیمی اداروں نے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ شراکت میں “کریٹیو ڈسٹرکٹیو لیبارٹری،” سائنس پارکس یا انوویشن ایلیز بنائے ہیں جہاں نوجوان اختراع کار اپنے خیالات کو مختلف کاروباری افراد تک پہنچاتے ہیں، کاروباری گروپس، سرمایہ کاری کے بروکرز، وغیرہ کے ذریعے ان کی کوچنگ کی جاتی ہے تاکہ اس سنگ میل کو حاصل کرنے میں مدد ملے جو انہیں ٹیکنالوجی کو تصوراتی مرحلے سے پروٹو ٹائپنگ، تجرباتی ٹیسٹنگ اور پھر مارکیٹ میں آگے بڑھانے کے قابل بناتے ہیں۔یہ سرمایہ کاروں کو ابتدائی مرحلے میں ایک نئے منصوبے میں شامل ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے، جو انہیں کمپنی کی ملکیت کا جذباتی اور مالی احساس دونوں فراہم کرتا ہے۔ اس طرح کے پروگرام ایسے اختراعات پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں جو انسانی تہذیب کو آگے بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز تیار کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پوری اسلامی دنیا میں ایسی کوئی قابل اعتبار اسکیم موجود نہیں ہے۔”
تاہم ایران، ترکی، ملائیشیا اور پاکستان میں کچھ کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوئی قابل اعتماد اور پائیدار نظام موجود نہیں ہے۔ پیٹنٹ فائل کرنے میں ایران سرفہرست ہے، ترکی بھی اس سےبہت زیادہ پیچھے نہیں ہے، حالانکہ ایسی کوششوں کا نتیجہ مصنوعات اورکمرشلائزیشن کی ترقی ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کی ، پیٹنٹس کی فائلنگ اور پھر بین الاقوامی سطح پر انہیں محفوظ بنانے کے لیے کوئی ٹھوس قومی کوشش نہیں ہے۔ اختراع کرنے والوں اور موجدوں کے پاس بھی اپنے آئیڈیا کو تصوراتی مرحلے سے مارکیٹ میں کسی پروڈکٹ تک لے جانے کے لیے نجی یا عوامی فنڈز تک رسائی نہیں ہے۔ جب تک قوم اپنی مستقبل کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے نوجوان ٹیلنٹ کے بے پناہ اثاثے کے باوجود، ٹھوس کوشش نہیں کرتی، اس بات کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں اپنی پاؤں پر کھڑی ہو۔
“نتیجہ یہ ہے کہ نسلیں بدلتے ہوئے ماحول کو اپناتی ہیں، اور یہ ان کی مستقبل کی بہتری کے عمل کو مزید تیز کرتی ہے۔ یہ ” صورت پذیری”، موافقت، اور نفاست انسانوں کو برتری کی سیڑھی پر مزید چڑھنے کی اجازت دیتی ہے۔ اپنے ارتقائی درجہ بندی کے عروج پر پہنچنے کے بعد، انسانی انواع حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کرتے ہوئے مستقبل کے لیے بہتر تیاری کے لیے اپنی “نیورونل رئیل اسٹیٹ” کو بڑھا رہی ہے۔ اس کے لیے انہیں متحرک ہونا ہوگا اور بہترین اور روشن دماغوں کو استعمال کرنا ہوگا اور پھر انہیں مناسب فنڈنگ اور انفراسٹرکچر فراہم کرکے کامیابی کے لیے تیار کرنا ہوگا۔”
پھر کامیابی ایسی قوموں کی عادت بن جاتی ہے ۔ انہیں حکمت عملی بنانے کی بجائے اپنی حکمت عملیوں کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بڑے مفکرین، دانشوروں، ماہرین، اسکالرز، فلسفیوں، سائنسدانوں، محققین، اور انجینئروں کا ایک اہم مجموعہ پھر تھنک ٹینکس کی چھتری کے نیچے سرایت کر جاتا ہے اور حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ اگرچہ گولڈ ایج کے بعد سے حقیقی دنیا کے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ کار اور نقطہ نظر نمایاں طور پر بدل گیا ہے، تاہم اصول وہی رہتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارے اقدار کے نظام وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، لیکن اصول وہی رہتے ہیں – جیسے قوانین فطرت ہیں۔
اس موجودہ دور سے ، سنہری دور کی طرف واپس پلٹ جانا ممکن یا عملی نہ ہو، لیکن ایک ایسا مرکب ماڈل تیار کیا جا سکتا ہے جو مذہبی، روحانی اور سائنسی دونوں اصولوں کے لیے جگہ بنا سکے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مسلم نوجوان نسل کا یہ غلط تصور نہیں ہے کہ جدید علوم ان کے عقیدے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
قرآن مجید سے زیادہ غور و فکر کی ترغیب کہیں اور نہیں ملتی۔ قرآن ان لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا ہے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے ہیں ۔ اس کے انعامات صرف غور کرنے والوں کے لیے یقینی ہیں۔
ہم اپنے پیغام کو دہرانا چاہتے ہیں کہ: قرآن میں نشانیاں تلاش کریں نہ کہ سائنس میں ۔ بعد والے پہلے والوں پر انحصار اور اعتبار کرتے ہیں۔ جابر اور ان کے بعد آنے والوں نے ہمیں ایسی ہی سفارشات دی ہیں اور اسی میں اسلام کے سنہری دور کے احیاء کے راز پوشیدہ ہیں۔